دِل کے معاملات سے ، انجان تو نہ تھا
اِسی گھر کا فرد تھا ، کوئی مہمان تو نہ تھا
تھیں جن کے دَم سے رونقیں ، شہروں میں جا بسے
ورنہ ہمارا گاؤں ، یوں ویران تو نہ تھا
بانہوں میں جب لیا اُسے ، نادان تھا ضرور
جب چھوڑ کر گیا مجھے ، نادان تو نہ تھا
کٹ تو گیا ہے ، کیسے کٹا یہ نہ پوچھیے ؟؟
یارو !! سفر حیات کا آسان تو نہ تھا
نیلام گھر بنایا نہیں اپنی ذات کو
کمزور اس قدر ، میرا ایمان تو نہ تھا
رسماً ہی آ کے پُوچھتا ، فاروق حالِ دل
کچھ اِس میں اُس کی ذات کا ، نقصان تو نہ
0 Comments