POEM

طلب لہو کی یہاں آج بھی رہی ، کل بھی
سجا دو شہر کی گلیاں بھی اور مقتل بھی

پکارتے تھے پرندے بھی وقت ہجر ہمیں
صدائیں دیتا رہا ساتھ ساتھ جنگل بھی

تمہیں بلائے زمانہ کا خوف کیونکر ہے ؟
تمہارے پاس تو ماں بھی ہے ، ماں کا آنچل بھی

یہ آئینوں کی رفاقت میں رہنے والے لوگ
شکستہ دل بھی نکلتے ہیں اور پاگل بھی

ابھی نہ سوچنا رنج سفر تمام ہوا
ابھی تو آئے گی رستے میں ایک دلدل بھی

کسے بتائیں ہمیں دو گنا اذیت ہے
کہ اک تو رنج ملا اور پھر مسلسل بھی

Post a Comment

0 Comments